حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پٹنہ،بہار/ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا شیخ ممتاز علی فخر الافاضل، واعظ، قمی، غازی پوری مرحوم کی یاد میں بتاریخ ۱۰؍نومبر بروز اتوار بوقت ۸؍بجے شب منجانب مجلس علماء خطباء امامیہ بہار و مومنین عظیم آباد بمقام امام بارگاہ ،یحیٰ منزل،چوالال لین،پٹنہ سٹی ایک جلسہ تعزیت و مجلس عزاء کا نعقاد کیا گیا۔ جس کا آغاز سید افہام رضا سلمہ نے تلاوت قرآن مجید سے کیا ۔اس کے بعد متعدد علماءو خطباء و مقررین نے حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا شیخ ممتاز علی فخرالافاضل، واعظ، قمی، غازی پوری اعلی اللہ مقامہ کی حیات و خدمات پر اپنے تاثرات و خیالات کا اظہار کیا۔
جناب مولانا سید امانت حسین صاحب قبلہ سابق پرنسپل مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ بہار نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ممتاز علی صاحب قبلہ مرحوم کی زندگی کے بعض پہلوؤں میں صحابی رسول حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے سوانح حیات کا عکس نمایاں طور سے دکھائی دیتا ہے۔جیسا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سلمان فارسی کو فارسی نہ کہو بلکہ سلمان محمدی کہو۔اور یہ کہ ’’سلمان ہم اہل بیت ؑ میں سے ہے‘‘۔
مولانا ممتاز علی صاحب قبلہ اپنا آبائی سنی مسلک کو ترک کرکے مذہب تشیع میں داخل ہوئے اور حوزہ علمیہ جامعہ جوادیہ بنارس میں پہونچے تو آیۃ اللہ سید ظفرالحسن رضوی صاحب اور مولانا سید شمیم الحسن صاحب نے اپنی آغوش تعلیم و تربیت میں پال پوس کر علم و عمل کا ایسا قابل قد و لائق احترام نمونہ بنا دیا کہ ان عظیم سادت کرام نے کہا کہ مولانا شیخ ممتاز علی ہماری اولادوں میں سے ہیں۔
مولانا ممتاز علی صاحب مرحوم کی غیرت و حمیت کا کیا کہنا کہ باوجود مالی و اقتصادی پریشانی تھی،اکثر فقر و فاقہ کی نونت آجاتی تھی مگر کھبی سوائے اللہ کے کسی بندے کے سامنے دست سوال نہیں پھیلایا ۔جس کا زندہ ثبوت ان کی اہلیہ اور دو بچیاں ہیں۔
جناب ناصر حسین صاحب IRS نے مولانا ممتاز علی صاحب قبلہ مرحوم کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہویئ کہا کہ مولانا ممتاز علی صاحب مرحوم حسن اخلاق کا پیکر تھے۔اخلاق اتنی اہم صفت ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ ’’میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ مکارم اخلاق کو مکمل کردوں‘‘مولانا مرحوم بہترین اخلاق کے حامل تھے ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں دیکھا گیا ایسے بہت کم علماء پائے جاتے ہیِں۔
حجۃ الاسلام جناب مولانا سید نذر علی صاحب قبلہ نے اپنے قلبی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولا علی علیہ السلام کی حدیث ہے کہ ’’جب تک زندہ رہو لوگ تم سے ملنا چاہیں اور جب مر جاؤ تو لوگ تمھاری یاد میں غمزدہ ہوجائیں‘‘مولانا مرحوم نے اس حدیث کی روشنی میں کچھ ایسی ہی زندگی گزاری کہ زندگی میں جو ملتا تھا تواضع و انکساری کا گرویدہ ہو جاتا تھا ۔اور ان کے مرنے کے بعد ان کے نماز جنازہ اور تدفین میں جتنا بڑا مجمع علماء و خطبا ءوواعظین و ذاکرین،دانشوران و مومنین کا امنڈ پڑا تھا وہ اپنے آپ میں ایک تاریخی ریکارڈ ہے۔
جناب مولانا سید اسد رضا صاحب قبلہ سابق پرنسپل مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ بہار نے مولانا ممتاز علی صاحب قبلہ مرحوم کے ایسال ثواب کی غرض سے منعقد مجلس عزاء کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہحجۃ الاسلام مولانا ممتاز علی واعظ قمی غازی پوری اپنے جملہ صفات و کمالات میں ممتاز تھے۔اس دور قحط الرجال میں ایسے عالم چراغ لے کر ڈھونڈھنے پر بھی نہیں ملیں گے۔خداوند عال مرحوم کو غریق رحمت کرے۔آخر میں مولانا نے مسائب سید الشہداء بیان کئے جسے سن کے سامعین کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔